سلسلہ عالیہ رشیدیہ قدیریہ بصیریہ کا جانشین کون؟
سلسلہ عالیہ رشیدیہ قدیریہ بصیریہ کا جانشین کون؟
کامل بزرگوں کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ روحانی اجازات و خلافت کے لئے اور بالخصوص سلسلہ کی جانشینی کے لئے قابلیت و اہلیت اور ادب دیکھا جاتا ہے صرف بیٹا ہونا کافی نہیں ہوتا اور سلسلہ قدیریہ کے بزرگوں کا بھی یہی وطیرہ رہا ہے۔چنانچہ قبلہ عالم سید عبدالرشید میاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت قبلہ و کعبہ سید عبدالقدیر میاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد سرکاراللہ ہو میاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پیر دبا رہے تھے سرکار اللہ ہو میاں نے بطور نصیحت قبلہ و کعبہ سےفرمایا ’’ دیکھو یہ مت سمجھنا کہ میں باپ ہوں اور تم بیٹے ہو ، اگر ادب ہے تو سب کچھ پالو گے اگر ادب نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں پاسکو گے۔‘‘
سراج عالم سید عبدالاحد میاں کو اللہ سبحانہ تعالی نے علم کے ساتھ ادب اور خدمت کی سعادت سے بھی مالا مال فرمایا ہے۔ جو لوگ ان کے اپنے والد گرامی قبلہ عالم کے ساتھ تعلق کو جانتے ہیں وہ گواہ ہیں کہ سراج عالم نے بطور فرمانبردار بیٹا اور بطور سعادت مند مرید خدمت کا حق ادا کردیا تھا اور آپ ان کا ادب ایسے کیا کرتے تھے جیسے ایک سعادت مند مرید اپنے مرشد اور شیخ طریقت کا کرتا ہے۔ قبلہ عالم بطور والد اور شیخ طریقت اپنے فرزند ارجمند سراج عالم سے ہر طرح سے راضی تھے اور اسکا ثبوت وہ الفاظ ہیں جو قبلہ عالم نے بوقت اعلان سجادگی ارشاد فرمائے اور جنہیں کیمرے کی آنکھ نے محفوظ بھی کر لیا ہے۔ چنانچہ آپ ارشاد فرماتے ہیں ’’ (حضرات یاد رکھئیے کہ )یہ (یعنی جان نشینی اور سجادگی کی سعادت اور اس کے)مراسم ادا ہوتے ہیں اس وقت کہ جب اولاد میں سے ایسا قابل ہوکہ وہ محبت بھی رکھے اور خدمت کے لئے راضی بھی ہو،پھر ہی اس کو یہ نعمت دی جاتی ہے‘‘
سراج عالم یوں بھی قابل رشک ہیں کہ یہ سجادگی اور جان نشینی صرف قبلہ عالم کی طرف سے نہیں تھی بلکہ روحانی دنیا میں بھی یہی فیصلہ کیا جا چکا تھا چنانچہ قبلہ عالم نے اعلان سجادگی کے وقت مجمع عام میں اس راز سے بھی پردہ اٹھا دیا تھاآپ فرماتے ہیں’’سرکار قبلہ و کعبہ نے مجھے یہ بیٹا( سراج عالم )عنایت فرمایا ہے۔ اورمجھے بارگاہ غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے انہی کے بارے میں (جان نشینی کا )حکم ہوا ہے‘‘
اعلان سجادگی کی عظیم الشان محفل
اگرچہ قبلہ عالم سید عبدالرشید میاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نےمتعدد نجی محفلوں میں آپ کی جان نشینی کا اعلان فرما دیا تھا لیکن 1988 میں جشن صد سالہ تاج العرفاء سید عبدالبصیر المعروف اللہ ہو میاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے موقع پرسینکڑوں علماء اور مشائخ اور اپنے بڑے بیٹے، لاکھوںمریدوں اور عوام اہل سنت کی موجودگی میں آپ کی جانشینی کا باقاعدہ اعلان فرما کر آپ کے سر پر دستار باندھی اور تمام سلاسل کی اجازات و خلافت سے مشرف فرما یا۔ سلسلے سے متعلق تمام امور خواہ وہ پاکستان کے ہوں یا انڈیا کہ سب آپ کے زیر تصرف فرما دئیے اور یہ سب تحریر کی صورت میں محفوظ بھی کردیا گیا۔ اور قبلہ عالم نے 1998 میں باقاعدہ پیلی بھیت کورٹ سے سراج عالم کی سجادہ نشینی کی رجسٹری بھی کروائی اور اس رجسٹری کو مجمع عام میں اپنےچھوٹے بیٹے کی موجودگی میں پڑھوا کر ایک مرتبہ پھر سراج عالم کی سجادہ نشینی کا اعلان فرمادیا تاکہ کوئی فتنہ پرداز اس کے بعد کوئی فتنہ نہ کھڑا کر سکے۔ اب اگر سراج عالم سید عبدالاحد میاں کے علاؤہ کوئی اور شخص سجادہ نشینی کا دعویٰ کرے تو وابستگان سلسلہ یہ بات اچھے سے جان لیں کہ وہ شخص جھوٹا اور کذاب ہے۔ اور نادانی میں جھوٹ گھڑ کے اپنی آخرت برباد کرنا چاہتا ہے اور جو شخص ایسے جھوٹے شخص کا ساتھ دے گا اس کی بھی آخرت برباد ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ نقلی جانشین جو عالم بھی نہیں وہ کیسے قبلہ عالم جیسے عالم اور ولی کامل کا سجادہ نشین بن سکتا ہے؟ اس اعلان کے بعد بھی اگر وہ شخص اپنے جھوٹے دعوی رجوع نہیں کرتا تو اس سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اس جان نشینی کا تحریری ثبوت دے یابتائے کہ کب کس مجمع عام میں ،کن افراد کی موجودگی میں اسے قبلہ عالم نے اپناجان نشین بنایا ہے۔ ان شاء اللہ تا صبح قیامت وہ اپنے سفید جھوٹ کو سچ ثابت نہیں کر سکے گا۔ وابستگان سلسلہ یہ بات جان لیں کہ اگرچہ کسی کا قبلہ عالم سے خونی رشتہ ہو لیکن جب قبلہ عالم نے اسے اپنا جانشین نہیں بنایا تو وہ زبردستی کیسے جانشین بن سکتا ہے ۔ پھر یاد رہے کہ قبلہ عالم نے کسی غیر عالم اور شریعت کے خلاف چلنے والے شخص کو اپنا جانشین نہیں بنایا۔ سلسلہ عالیہ قدیریہ بصیریہ کے حقیقی اور اکلوتے سجادہ نشین اور روحانی وارث صرف سراج عالم حضرت مولانا سید عبد الاحد میاں ہیں اور ان کے بعد فخر عالم حضرت مولانا سید فضل حمید میاں صاحب اطال اللہ عمرہ اور ان کے بعد ولی عہد سید بصیر علی المعروف بادشاہ میاں۔
خاک راہ درد منداں
عبد الواجد حمزئی احدی رشیدی قادری

